ایڈنوویٹ پاکستان ۔ تعلیم میں جدت (حصہ اول)

سینٹر فار اکنامک ریسرچ اِن پاکستان (CERP)اور لمز سکول آف ایجوکیشن کے زِیراہتمام لمز یونیورسٹی  (LUMS)  میں تعلیم میں جدت کے موضوع پر ایک نشست ہوئی۔اِس تقریب کا مقصد اہم رہنماؤں اور فیصلہ سازوں کے مابین ایک ایسے مکالمہ کا موقع فراہم کرنا تھا جس کے ذریعے پبلک،پرائیویٹ اور نان پرافٹ سکولز میں ایسی تعلیم کو اجاگر کیا جائے جو جدت کی بنیاد پر ہو۔ اِس مکالمے کے ذریعے پالیسی سازوں،عملی جامہ پہنانے والوں، محققین  اور ڈونرز کو پاکستان کی تعلیم میں تحقیق اور جدت کی اہمیت پر متفق کرنے کی کوشش کی گئی۔یہ چھوٹی سی مگر بہت ہی معلومات افزاء نشست تھی جس نے شرکا کو اپنے خیالات کے اظہار کا موقع فراہم کیا۔اِس نشست میں ایک دوسرے سے مکالمہ، گروپ کی صورت میں بات چیت اور سوال وجواب کے سیشن شامل تھے۔
ابتدائی کلمات ادا کرتے ہوئے ڈاکٹر سہیل نقوی  (وائس چانسلر لمز یونیورسٹی) نے کہا۔لمز سکول آف ایجوکیشن لوگوں کو یہ موقع فراہم کر رہا ہے کہ وہ مکالمے کے ذریعے اپنے نقطہ نظر کا اظہار کریں اور تعلیم میں جدت کے پہلو کو نمایاں کرنے کے لیے اپنا اہم کردار ادا کریں۔انہوں نے مزید کہا کہ لمز نے اپنی 30سالہ تاریخ میں مختلف شعبوں میں جدت لانے کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں۔اِن میں سے لمز سینٹر آف انویشن ایک ایسا ہی اقدام ہے۔یہ قدم ظاہر کرتا ہے کہ لمز جدت کی اہمیت پر یقین رکھتا ہے۔
 ڈاکٹر طاہر اندرابی (ڈین لمز سکول آف ایجوکیشن)نے تعلیم میں جدت پر اپنے تحقیقی منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ  لیپس (LEAPS) کے تحت انہوں نے ایک پروجیکٹ پر 120 دیہات میں کام کیا۔ اِن دیہات میں بہت سے سکول تھے۔ اِس منصوبے میں یہ بات دیکھی گئی کہ ایک غیر تعلیم یافتہ ماں اپنے بچوں کے سکول کے انتخاب کے معاملے میں کیسے فیصلہ کرتی ہے۔ایسی ہی جگہ پر تجربات کے ذریعے تنظیم سازی اور عقلی بنیادوں پر فیصلہ سازی کی جا سکتی ہے۔اسی طرح کے ایک اور پروجیکٹ پر ڈاکٹر طاہر اندرابی نے کام کیا۔ اِس پروجیکٹ کے تحت سکولوں کو قرض کی فراہمی تھا۔تاکہ محدود وسائل والے سکول اپنی ضروریات کو پورا کر سکیں۔ مگر یہ سکول جو کہ تعلیم میں جدت سے چونکہ بالکل نا واقف تھے اِس لیے یہ مہیا کی گئی رقم کا صحیح استعمال نہ کرسکے۔ اسی بات پر ڈاکٹر طاہر اندرابی نے زور دیا کہ محققین کے ساتھ ساتھ عملی جامہ پہنانے والوں کا بھی کردار بہت اہم ہے۔
کسی بھی تحقیق کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ماہر لوگوں ( Implementers) کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔کیونکہ یہ عمل ماہر لوگ ہی تحقیق کی صحیح روح کے مطابق عمل درامد کروا سکتے ہیں۔ محققین اور عملی جامہ (Implementers) پہنانے والوں کا آپس میں اچھا رابطہ ہی کسی منصوبے کی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔اور لمز سکول آف ایجوکیشن اِس خلا کو پُر کرنے کی کوشش میں ہے۔
 کچھ سالوں سے پاکستان میں تعلیم نے ایک مسافت طے کی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پڑھنے والے بچوں میں لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ہر آنے والی حکومت اِس بات پر متفق نظر آتی ہے کہ تعلیم ہمار ی اولین ترجیح ہے اور اسی لیے ہر حکومت اِس کو اپنے ایجنڈے میں رکھتی ہے۔اسی لیے یہ ایک سنہرا موقع ہے کہ محققین اور پالیسی ساز مل کر تعلیم میں جدت اور اصلاحات لائیں۔
تعلیم میں مالی جدت (Financial Innovation) :
اِس سیشن میں ڈاکٹر عاصم خواجہ (ہارورڈ یونیورسٹی)،  ڈاکٹر طاہر اندرابی اور ندیم حسین(صدر تعمیر بینک) کے مابین  تعمیر بینک سے متعلق مکالمہ ہوا۔مالی ادارے یا بینک سکولوں کی ضروریات کے مطابق کوئی ایسی سکیم نہیں لاسکے جو اِس سکولوں کی مالی حالت کو سدھارنے میں معاون ثابت ہو سکے۔ ایسے مالی ادارے جن کی نفع کی شرح تقریباً 30فیصد تک ہے اِتنی شرح سے کسی بھی سکول لے لیے ممکن نہیں کہ وہ اِس شرح تک مالی ادارے کو واپس کر سکے۔ 
مگر کئی سالوں کی محنت کے بعد اب تعمیر بینک نے اِس کام کی ابتدا ء کی ہے اور پانچ مختلف قرض کی سکیموں کا اغاز کیا ہے۔یہ مالی نمونے ڈاکٹر طاہر انداربی اور ڈاکٹر عاصم خواجہ نے بنائے ہیں اِن سکیموں میں سکول مالکان کو یہ سہولت دی گئی ہے کہ وہ اپنی مرضی اور اپنے حالات سے مطابقت رکھتی کسی بھی سکیم کو اختیار 
کرسکتے ہیں۔ اِ ن سکیموں میں جامد فنانسنگ (Static Financing)،  محصول کا اشتراک  (Revenue Share) اور خطرے کی بنیاد پر واپسی  (Risk Based Return)  سکیمیں شامل ہیں۔زیادہ تر لوگ خطرے کی بنیاد پر واپسی  (Risk Based Return) والی سکیم کو اختیار کرتے ہیں۔اِس خیال کے پسِ پردہ محرکات میں یہ بات شامل تھی کہ سکولوں کے مالکان کو یہ موقع فراہم کیا جائے کہ وہ تعلیم کے میدان میں جدت اختیار کرتے ہوئے یہ رقم اُن مسائل پر خرچ کریں جن کی وجہ سے سکولوں میں منافع اور تعلیم میں بہتری لائی جاسکے۔اور یہ رقم مکمل طور پر سکول مالکان کے اختیار میں دی گئی ہے۔
تعمیر بینک نے تعلیم کے میدان میں سرمایہ کاری کے زریعے جدت پیدا کی اور اِس جدت کو لانے میں تعمیر بینک کے صدر جناب ندیم حسین کی کاوشیں قابلِ ستائش ہیں۔ تعمیر بینک کی کامیابی نے دوسرے بینکوں کو بھی اِ س میدان میں کام کرنے کا حوصلہ فراہم کیااور اب بینک الفلاح نے بھی سکولوں میں سرمایہ کاری شروع کردی ہے۔
سکولوں میں معیاری اور سستے نصاب کی فراہمی:
اِس مکالمے میں امینہ سید (مینیجنگ ڈائریکٹر آکسفورڈ پریس) نے اپنا اظہارِ خیال کیا اِس گفتگو میں میرا کردار ایک نگران (Moderator) کا تھا۔گفتگو کے آغاز میں امینہ سید نے بتایا کہ کس طرح آکسفورڈ پریس نے بکس مارکیٹ میں اپنی جگہ بنائی۔ابتدائی طور پر بکس مارکیٹ میں جگہ بنانے کے لیے پاکستان کے مختلف علاقوں میں کتاب میلوں کا انعقاد کیا گیا۔اِن میلوں میں والدین، طلبہ، سکول مالکان کو مدعو کیا گیااور لوگوں میں آگاہی پیدا کی گئی۔ کتابوں پر رعایت دی گئی۔اِس سارے عمل میں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ لوگ اپنے بچوں کی تعلیم پر خرچ کرنا چاہتے ہیں۔یہ لوگوں میں کتابوں کی مقبولیت ہی تھی جس کی وجہ سے اِن میلوں کو مستقل سیل پوائنٹس میں تبدیل کرنا پڑا اور اِس وقت 28  سیل پوائنٹس پورے ملک میں کام کر رہے ہیں۔
دوسرے مرحلے میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے اپنے نمائندوں کو سکولوں میں بھیجا تاکہ وہ سکول مالکان کو اساتذہ کی تربیت اور نصاب کی اہمیت سے آگاہ کرسکیں۔اِن نمائندوں کے زریعے سکولوں کے مسائل اور خدشات کا علم ہوا۔اِس مرحلے میں جن سکولوں نے آکسفورڈ کا نصاب لگایا وہاں پر بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوااور اِسی وجہ سے دوسرے سکولوں کو بھی اپنے سکول میں آکسفورڈ کا نصاب لگانا پڑا۔ ایک اور راز کی بات کہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے مقامی اداروں کی حمایت اور اُن کا تعاون بھی حاصل کیا۔مثال کے طور پر پاکستان کی علاقائی ثقافت سے مطابقت رکھتے نصاب کو بنانے کے لیے کچھ مقامی اداروں کی مدد لی گئی۔یہی وجہ ہے کہ آج آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کا نصاب مکمل طور پر سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی ضروریات کو پورا کرتا ہے اوراسی وجہ سے آج شاید ہی کوئی ایسا پرائیویٹ سکول ہو جو آکسفورڈ پریس کی کتابیں نہ استعمال کر رہا ہو۔
ایک بڑا مسئلہ سرکاری سکولوں کی طرف سے مزاحمت کی صورت میں سامنے آیا تھا جس کو حل کرنے کے لیے سرکاری سکولوں میں تربیتی ورکشاپس کا اہتمام کیا گیا۔ سرکاری سکول یہ نہیں چاہتے تھے کہ کسی طرح سے آکسفورڈ سکول سرکاری سکولوں میں اپنی جگہ بنائیں اور اِس کی وجہ سرکاری سکولوں میں قابض مافیا تھے جن کا انحصار اور مسقبل انہی سے منسلک تھا۔اِسی سلسلے میں ایک بڑا مسئلہ بک پائریسی کا تھا۔ مقامی طور پر کچھ لوگوں نے آکسفورڈ پریس کی نقلی کتابیں بنا کر مارکیٹ میں دینی شروع کر دیں اسی وجہ سے ادارے کو مالی نقصان کا بھی سامنا رہا۔اِس مسئلے کے حل کے لیے مختلف حربوں کا استعمال کیا گیا۔ 
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس تعلیم میں جدت لانے کے لیے مزید اقدامات کر رہا ہے اور تعلیم کو بچوں کے لیے مزید پُر کشش بنانے کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل کرتا رہتا ہے تاکہ تعلیم میں جدت کا یہ عمل جاری رہے۔
ثبوت پر مبنی تعلیم کا انتظام۔ (Evidence-driven Education Management)
ثبوت پر مبنی تعلیم کے انتظام پر گفتگو کا سیشن جناب قاسم قصوری (سی ای او بیکن ہاؤس) اور ڈاکٹر طاہر اندرابی کے مابین تھا جس میں ڈاکٹر صاحب نے ایک نگران  (Moderator) کا کردار ادا کیا۔گفتگو کا آغاز تعلیم میں اساتذہ کے کردار سے کیا گیا۔اور اِس بات پر زور دیا گیا کہ اساتذہ مختلف پسِ منظر کے حامل ہوتے ہیں اور یہ اُن کے تعلیمی عمل پر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔سرکاری سکولوں میں اُن کے تعلیم میں کردار کا تعین اُن کی سنیارٹی سے کیا جاتا ہے نہ کہ قابلیت سے جبکہ پرائیویٹ سکولوں میں چونکہ وہ کم تنخواہ پر ہوتے ہیں اِس لیے زیادہ تر نوجوان اور نا تجربہ کار ہوتے ہیں۔
تعلیمی انتظام ( Education Management)سے متعلق سوالوں کے جواب دینے کے لیے کسی بھی سکول کے پاس بہتر معیار کے اساتذہ ضروری ہیں اور بیکن ہاؤس اِس طرف خصوصی توجہ دیتا ہے۔قاسم قصوری نے ناظرین کو بتایا کہ کیسے بیکن ہاؤس نے اپنے انتظامی امور کو بہتر کیا۔ بیکن ہاؤس کو شروع میں اعدادوشمار کی تشخیص میں بہت دشواری کا سامنا تھا۔ شروع میں اکٹھے کئے گئے اعدادوشمار بالکل غلط ثابت ہوئے۔تب ہی اِس مسئلہ کے حل کے لیے ماہرین سے مدد لی گئی اور پھر سکول ایویلیوایشن یونٹ ( School Evaluation Unit)کا قیام عمل میں آیا۔ اِس سسٹم میں اساتذہ کو مختلف طریقوں سے جانچا جاتا ہے۔ اساتذہ کی جانچ پڑتال کلاس رومز، نتائج اور والدین کی طرف سے موصول ہونے والی آراء کے زریعے کی جاتی ہے۔
اِسی سیشن میں محترمہ سلیمہ ہاشمی صاحبہ نے تعلیم میں فن (آرٹ) کی اہمیت پر بہت زور دیا اُن کا کہنا تھا کہ فن کو اساتذہ نے صحیح طریقہ سے طالبِعلموں کو متعارف ہی نہیں کروا یا اور نہ ہی سکولوں میں اِس کو اہمیت دی جاتی ہے۔تعلیم میں جدت پیدا کرنے کے لیے دوسرے شعبوں کی طرح فن کو بھی اہمیت دینی پڑے گی اور یہ کام خواتین بہتر انداز میں سرانجام دے سکتیں ہیں۔
بقول علامہ اقبال!
اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت نہ دیکھے،وہ نظر کیا.

 

 

 

پرائمری تعلیم کی اہمیت
پرائمری تعلیم کی اہمیت

پرائمری تعلیم لازمی بنیادی تعلیم کا پہلا قدم ہے۔ یہ تعلیم چار سال سے دس سال کے بچوں کو دی جاتی . . .

نئی حکومت سے شعبہ تعلیم میں توقعات
نئی حکومت سے شعبہ تعلیم میں توقعات

حکو مت سازی کا عمل  مکمل ہونے کے بعد اب حکومت کو تقریباً سات ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ تین صوبوں میں . . .

پیشہ ورانہ تعلیم
پیشہ ورانہ تعلیم

دنیا کی معیشت بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور دنیا میں وہی قومیں ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں جو اپنی . . .