سندھ میں تعلیم

صوبہ سندھ معیشت کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے اہم صوبہ سمجھا جاتا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا صوبہ ہے جس کی آبادی 5کروڑ سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ صوبہ سندھ کی خاص بات یہاں کی بندرگاہ ہے جس کے ذریعے سے پاکستان پوری دنیا سے تجارتی رابطہ رکھتا ہے اور یہی بندرگاہ زرِمبادلہ کا بڑا زریعہ بھی ہے۔صوبہ سندھ میں نظامِ تعلیم کا موازنہ دوسرے صوبوں سے کیا جائے تو ہمیں صورتحال دوسرے صوبوں سے مختلف نظر نہیں آتی۔ مگر صوبہ سندھ کو دوسرے صوبوں سے جو چیز ممتاز کرتی ہے وہ کرپشن ہے۔ دیگر شعبوں کی طرح یہاں کا شعبہ تعلیم انتہا درجہ کی کرپشن کا شکار ہے۔ آئے روز کوئی نہ کوئی سکینڈل منظرِعام پر آجاتا ہے اور کچھ عرصہ پہلے صوبائی وزیر کو بھی کرپشن ہی کی وجہ سے اپنے عہدے سے ہٹنا پڑا۔
اعدادوشمارکے لحاظ سے دیکھا جائے تو شرح خواندگی تقریباً  60%  ہے۔ پرائمری،مڈل،سکینڈری اور ہائر سکینڈری سکولوں کی کل تعداد  46039  ہے جن میں سے  7058  سکول لڑکیوں کے لیے ہیں۔اِن سکولوں میں پڑھنے والے طلبہ و طالبات کی کل تعداد  4044476  ہے جن میں سے 1599528طالبات ہیں۔اِن طلبہ اور طالبات کو پڑھانے کے لیے کل اساتذہ کی تعداد   144170ہے اِن میں سے  44677  خواتین اساتذہ ہیں۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حکومتِ سندھ اپنے کل بجٹ کا تقریباً 25%   تعلیم پر خرچ کرتی ہے مگر زمینی صورتحال کافی تشویشناک صورتحال کو ظاہر کرتی ہے۔ جیسا کہ بنیادی سہولیات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پتہ چلے گا کہ کل  46,039  سکولوں میں سے  28,760  سکول بجلی کی سہولت سے عاری ہیں۔  21,102  سکولوں میں بیت الخلا ء نہیں ہے۔  23,315 سکولوں میں پینے کا پانی میسر نہیں۔  18,907 سکولوں کی چار دیواری موجود نہیں ہے۔اسی طرح جب سکول میں لیبارٹری،لائبریری اور کھیلوں کے میدان دیکھے جائیں تو معلوم ہوگا کہ   45,725 سکولوں میں لیبارٹری نہیں ہے۔   45,264 سکول لائبریری جیسی نعمت سے محروم ہیں اور  38,392  سکولوں میں کھیل کے میدان جیسی کوئی شے نہیں ہے۔
یہ اعدادوشمار کوئی ہوائی باتیں نہیں ہیں بلکہ یہ سب معلومات حکومتِ سندھ کی ویب سائٹ پر سے لی گئی ہیں۔ اِن اعدادوشمار سے ہٹ کر اگر محکمہ تعلیم پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ دیگر صوبوں کی نسبت سب سے ذیادہ کرپشن سندھ کے محکمہ تعلیم ہیں ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کرپشن میں سندھ محکمہ تعلیم پہلے نمبر پر ہے تو غلط نہ ہوگا۔اِس محکمہ میں گھوسٹ ملازمین کے علاوہ گھوسٹ سکولوں کی تعداد  دیگر تمام صوبوں سے زیادہ ہے۔انتہائی دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ تعلیم کے شعبے میں رشوت لے کر اُن افراد کو بھرتی کیا گیا جن کا تعلیم سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔سننے میں آیا ہے کہ اِن افراد سے بھرتی کی مد میں دو لاکھ سے پانچ لاکھ تک وصول کیا گیا ہے۔یہ افراد برائے نام سکول آتے ہیں اور اگر آبھی جائیں تو چند لمحے گزارنے کے بعد چلے جاتے ہیں یہ بھی سنا گیا ہے کہ کئی افراد تو بیرونِ ملک ملازمت کرتے ہیں اور یہاں سے تنخواہ بھی وصول کر رہے ہیں۔اِن اساتذہ کی تعلیمی قابلیت کی چشم دید گواہ تو میں خود بھی ہوں جب ایک دفعہ کسی ٹی وی چینل پر سندھ میں احتجاج کرتے ہوئے اساتذہ کے انٹرویوز لیے گئے۔  یہ احتجاج کرنے والے اساتذہ بنیادی معلومات، قرانی آیات اور صحافی کی طرف سے پوچھے گئے انگریزی کے چند الفاظ کے سپیلنگ بتانے سے قاصر تھے۔ اِس سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اساتذہ بچوں کو کیا تعلیم دیں گے۔سب سے زیادہ بری حالت اندرونِ سندھ کے سکولوں کی ہے جہاں پر وڈیرہ سسٹم چھایا ہوا ہے۔ اِن وڈیروں نے سکولوں کو اپنے ڈیروں اور مویشیوں کے باڑوں میں بدلا ہوا ہے اور یہاں کے اساتذہ کو ذاتی ملازم کی طرح سمجھتے ہیں۔
خرابی صرف اساتذہ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ بھی زبردست بدعنوانی کا شکار ہے۔کتابوں کی چھپائی سے لیکر بچوں تک کتب کی رسائی کے تمام مراحل کرپشن کا شکار ہیں۔نصابی کتب کی اشاعت انتہائی ناقص مٹیریل سے کی جاتی ہے بلکہ اِس ضمن میں بیرونِ ملک سے ملنے والی رقم بھی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔اِس معاملے میں پنجاب اور کے پی کے میں صورتحال کافی بہتر ہے جہاں کتابوں کی چھپائی میں معیار کو مدِنظر رکھا جاتا ہے اور نسبتاً کرپشن بہت کم کی جاتی ہے۔ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سندھ میں پچھلی کئی دہائیوں سے پیپلز پارٹی کی حکومتیں رہی ہیں مگر افسوس یہ حکومت تعلیم کی فراہمی میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تعلیم ترجیحات میں شامل نہیں ہے تو غلط نہ ہو گا بلکہ تعلیم کو بھی کرپشن اور بدعنوانی کا بہت بڑا زریعہ بنا دیا گیا ہے  اور آئے دن کرپشن کی داستانیں سننے کو ملتی ہیں۔ بہت سے افسران کو گرفتار بھی کیا گیا اور کئی افسران یا تو روپوش ہیں یا پھر بیرونِ ملک بھاگ چکے ہیں۔ اِن حالات تک پہنچانے والے بھی سیاستدان ہیں اور جس دن وہ یہ فیصلہ کر لیں گے کہ ہم نے اپنے لوگوں تک تعلیم پہچانی ہے اُسی دن سے حالات بہتری کی طرف جانا شروع ہو جائیں گے۔
سندھ کے لوگ اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا چاہتے ہیں مگر اُن کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ غربت ہے۔ اندونِ سندھ میں تو غربت کے مارے لوگوں میں تعلیم کا تصور ہی نہیں ہے۔شہری علاقوں میں پرائیویٹ سکولوں نے تعلیم کے شعبے میں کافی کردار ادا کیا ہے مگر مسئلہ یہاں بھی وہی ہے کہ غریب آدمی یہاں بھی اپنے بچوں کو نہیں پڑھا سکتاکیونکہ اِن سکولوں کی فیسیں ہی اُس کی بساط سے باہر ہیں۔
سندھ میں تعلیم کی یہ حالت اچانک وقوع پذیر نہیں ہوئی بلکہ اِس کی بہت ساری وجوہات ہیں اگر اِن وجوہات کو ہم پہچان لیں تو شاید تعلیم کی حالت بہتر کر سکیں۔ اِن وجوہات میں سب سے بڑی اور پہلی وجہ بہت بڑے پیمانے پر کرپشن ہے جب تک ہم اِس کو ختم نہیں کریں گے ہم تعلیم میں بہتری نہیں لا سکیں گے۔ پھر دوسرے نمبر پر جب تک ہم اپنے نظامِ تعلیم کو سیاسی مداخلت سے پاک نہیں کریں گے بہتر نتائج نہیں نکلیں گے۔
ہمیں دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے بچوں کو معیاری تعلیم سے آراستہ کرنا ہو گا۔معاشرے میں تفریق کو ختم کرنے کے لیے یکساں نظامِ تعلیم وقت کی اہم ضرورت ہے۔اِن سب باتوں کے ساتھ ساتھ اپنے غریب لوگوں تک سستی اور معیاری تعلیم کی فراہمی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ اِس سلسلے میں عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔اب ہمارے سیاستدانوں کو اپنے لوگوں کو بنیادی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ تعلیم کے موقعے بھی فراہم کرنے چاہئیں تاکہ 
"  تعلیم سب کے لیے "   ایک خواب نہ رہے۔ 

 

 

 

کوویڈ- 19 کے بارے میں حقائق
کوویڈ- 19 کے بارے میں حقائق

تعارف: کورونا وائرس کی مختلف اقسام کو ہم  1960ء سے جانتے ہیں  لیکن اِس کی مختلف قسم حال ہی میں . . .

غیر نصابی سرگرمیوں کی تعلیم میں اہمیت
غیر نصابی سرگرمیوں کی تعلیم میں اہمیت

آج کے تعلیمی ماحول کو دیکھتے ہوئے یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ہماری آج کی تعلیم کا مکمل انحصار . . .

نئی حکومت سے شعبہ تعلیم میں توقعات
نئی حکومت سے شعبہ تعلیم میں توقعات

حکو مت سازی کا عمل  مکمل ہونے کے بعد اب حکومت کو تقریباً سات ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ تین صوبوں میں . . .