ایڈنوویٹ پاکستان۔ تعلیم میں جدت (حصہ دوئم)

ایڈنوویٹ پاکستان۔ تعلیم میں جدت " کے عنوان سے پہلے حصے میں تعلیم میں مالی جدت، سکولوں میں معیاری اور سستے نصاب کی فراہمی اور ثبوت پر مبنی تعلیم کے انتظام پر بات کی گئی۔ آرٹیکل کے اِس حصہ میں پینلز کی صورت میں گفتگو اور ڈاکٹر جشنوداس (ورلڈ بینک) کے پاکستان کی تعلیم پر پندرہ سالہ مشاہدات شامل ہیں۔پہلے پینل کے سیشن میں اُن ماہرین کی گفتگو شامل ہے جو کہ مفاداتِ عامہ (پبلک سیکٹر)میں کام کر رہے ہیں۔اِس پینل کی گفتگو کے شرکا میں طاہر رؤف  پروگرام مانیٹرنگ اینڈ ایمپلی مینٹیشن یونٹ  (PMIU)، سیما عزیز ( Care Foundation) اور ہیلن کمال (Ilm Ideas II)شامل تھے اور اِس پینل میں ڈاکٹر علی چیمہ  (Institute of Development and Economic Alternatives    )  نے نگران کے فرائض انجام دیئے۔
اِس گفتگو کا مقصد اُن جگہوں کی نشاندہی کرنا تھا جہاں تعلیم میں جدت لائی جاسکتی ہو یا پھر تعلیم میں جدت کے مواقع پیدا کرناہو۔پچھلے کچھ سالوں سے تعلیم میں جدت لانے کے لیے پروگرام مانیٹرنگ اینڈ ایمپلی مینٹیشن یونٹ(PMIU)  نے مختلف اقدامات کیے ہیں اور اِن اقدامات پر عمل درآمد بھی کروایا ہے۔اِن اقدامات میں سکولوں کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کے لیے اعدادوشمار کے زریعے فہرست کی ترتیب شامل ہے۔اِس اعدادوشمار کی فہرست کی وجہ سے سکولوں میں تقابلی جائزہ کا موقع ملا اور سکولوں کی کارکردگی منضبط (Organize) کرنے میں مدد ملی۔اِسی فہرست کی وجہ سے اُن جگہوں کی نشاندہی ہوئی جہاں سکول بچوں کی پہنچ سے باہر تھے۔ماضی قریب میں اِسی طرح کا ایک اور قدم اساتذہ کی حوصلہ افزائی کے سلسلے میں اِس طرح کاایک سروے کروایا گیا۔جس میں یہ بات سامنے آئی کہ اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافہ اُن کی کارکردگی میں بہتری نہیں لاتا۔اِس سروے سے اساتذہ کی نفسیات اور سکول میں اُن کی حوصلہ افزائی کرنے والے اقدامات کو جاننے کا موقع ملا۔
کیئر فاؤنڈیشن ملک میں 900 سکولوں کا ایک بہت بڑا نظام چلا رہی ہے۔اِن نو سو سکولوں میں تقریباً 24لاکھ بچے مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنا ایک مشکل کام ہے۔یہ کیئر فاؤنڈیشن ہے جس نے پانچ ہزار خراب ترین کارکردگی والے سکولوں کو اپنی تحویل میں لے کر وہاں دو شفٹس میں تعلیم دینا شروع کیا۔ دوسری شفٹ میں کچھ اساتذہ صبح والی شفٹ سے لیے گئے اور کچھ نیا عملہ بھرتی کیا گیا۔اِس طرح سے کیئر فاؤنڈیشن نے تعلیم میں جدت لاتے ہوئے غیر فعال سکولوں کو فعال بنانے کی کوشش کی۔اِس پینل نے اُن اقدامات پر بھی روشنی ڈالی جن کی وجہ سے سکولوں کے نتائج میں بہتری آئی ہے۔ اِ ن میں سب سے اہم کردار استاد کاہے۔ استاد کا اچھا کردار بچوں کے بہتر نتائج کی ضمانت ہوتا ہے۔ ایک صحت مند ماحول سے ہی بہتر نتائج لائے جاسکتے ہیں۔
اِس سیشن میں ایک اہم بات کی گئی کہ حکومت کی طرف سے مرکزیت والی پالیسی کی وجہ سے اساتذہ کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے اساتذہ کو تخلیق اور جدت پر مبنی تعلیم کی فراہمی میں دشواری کا سامنا ہے۔حکومتی نمائندے اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مرکزیت(Centralization)  اور سیاسی اثرو رسوخ بہت سی خرابیوں کا باعث ہے مگر پھر بھی حالات بہتری کی طرف گامزن ہیں۔اِن تمام مسائل کے باوجود تمام شرکاء اِس بات پر متفق تھے کہ تعلیم میں جدت کسی بھی قسم کے حالات اور کسی بھی سطح پر لائی جا سکتی ہے۔اِس مقصد کے لیے پالیسی سازوں کو سخت محنت سے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح سے تعلیم دینے کے عمل کو دلچسپ بنایا جا سکتا ہے۔تعلیم میں جدت لانے کے عمل میں اساتذہ کو بھی شامل کیا جانا چاہئے۔یہ اِس لیے بھی ضروری ہے کہ اساتذہ کے ذریعے سے ہی یہ عمل طلباء تک پہنچنا ہے۔اور اساتذہ زیادہ بہتر انداز میں نئے اور ممکنہ منصوبوں کے مثبت اور منفی پہلوں پر رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔اِس عمل میں اساتذہ کی حوصلہ افزائی بہت بہتر نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔
دوسرے پینل میں تعلیمی پالیسی کو ثبوت (Evidence)سے ہم آہنگ کرنے کے عمل کو زیرِ بحث لایا گیا۔یہ گفتگو محققین، اعدادو شمار کے صارفین اور میڈیا کے 

نمائندوں کے مابین ہوئی۔اِس گفتگو کے شرکاء میں بیلا رضا جمیل (ادارہ تعلیم و آگاہی)، علی خضر، احمر محبوب(دی یونیورسٹی آف سڈنی)شامل تھے اور نگران کے طور پر ڈاکٹر  فیصل باری (Institute of Development and Economic Alternatives)موجود تھے۔پینل نے اِس گفتگو کا آغاز حکومتی اداروں اور تحقیقی اداروں میں اعدادوشمار کے استعمال میں فرق پر کیا۔تعلیمی نقطہ نظر سے محققین خاصے دباؤ کا شکار ہیں کیونکہ اعدادوشمار کی فہرست بہت زیادہ ہے جبکہ اِس کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں۔ گورنمنٹ کے ادارے ہی صحیح اعدادوشمار کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اور اِس کو سیاست کی نذر کر دیتے ہیں۔
پاکستان میں تعلیم میں ریسرچ پر ابھی بہت کام ہونا ہے۔تحقیق میں بہتری لانے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال بہت ضروری ہے۔ پاکستان کی بہت بڑی آبادی ابھی ٹیکنالوجی کے استعمال سے نابلد ہے۔ اِس لیے ابھی تحقیقی اداروں کو حکومتی اعدادوشمار پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔
اعدادوشمار تک صحیح رسائی کے لیے سکولوں کو ڈیجیٹل شکل دینا ضروری ہے۔اِس سے سکولوں کی کارکردگی جانچنے اور سکول اور طلباء اور اساتذہ کے بارے میں باخبر رہنے میں مدد ملے گی۔پاکستان میں تعلیمی حالت کی بہتری کے لیے اِس طرح کی ملاقاتیں ضروری ہیں جس میں حکومتی نمائندے اور محققین شامل ہوں اور مل کر تعلیم کی بہتری کے لیے کوئی راہ نکال سکیں۔
اِس گفتگو کے بعد اگلی گفتگو ڈاکٹر جشنوداس (ورلڈ بینک)نے کی۔ انہوں نے پاکستان میں اپنے کیے گئے کام اور مشاہدات کا ذکر کیا۔انہوں نے اِس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں تعلیم کے دریا کا رُخ موڑنے کا وقت آگیا ہے۔اب پاکستان میں تعلیم کو معیاری تعلیم میں بدلنے کی ضرورت ہے۔اور اِس تبدیلی کے لیے تین چیزیں اہم ہیں۔ پہلی چیز اعدادشمار اور اِس کی قانونی حیثیت کے بارے میں بڑے فیصلوں کا ہونا ضروری ہے۔اور یہ عمل پہلے اعدادوشمار کی قانونی حیثیت سے شروع ہوتا ہے پھر اعدادوشمار کو اکھٹا کرنے کے لیے کسی نظام کی طرف جایا جاتا ہے۔اِسی طریقہ سے صحیح اعدادوشمار کو اکٹھا کرنے میں مدد بھی ملے گی۔دوسرے نمبر پر دقیانوسی خیالات سے بچنے کی ضرورت ہے۔الزام تراشی اور پرانے خیالات تعلیم میں بہتری کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اِس فیلڈ میں کام کرنے والے کئی لوگ اِس نظام میں بہتری چاہتے ہیں اور اِس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کو بھی تیار ہیں۔تیسرے نمبر پر تعلیم میں بہتری کے لیے ممکنہ حل کے طور پر اُن لوگوں کو بھی بحث میں شامل کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے اِس پر عمل درآمد کروانا ہے۔اَن لوگوں کی شمولیت سے کامیابی کی شرح میں بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔
کسی بھی پراجیکٹ کو قابلِ عمل حل تک لے جانا اِتنا آسان نہیں ہوتا۔ڈاکٹر جشنوداس نے کہا کہ کسی بھی نظام میں بہتری کے لیے اِس میں مداخلت ضروری ہے۔پاکستان تعلیمی مسائل کے حل کی طرف دیکھ رہا ہے۔اور ہر کوئی تعلیم میں بہتری کا خواہاں ہے۔یہ تصور کہ پاکستان میں تعلیم بدحالی کا شکار ہے درست نہیں ہے کیونکہ تعلیم پوری دنیا میں ہی مسائل کا شکار ہے۔اِس لیے ہمیں تعلیم کی بہتری کے لیے اقدامات جاری رکھنے چاہئیں۔اور سوچنے پر توجہ دینی چاہئے کہ وہ کونسے اقدامات ہیں جن سے ہم پاکستان کے تعلیمی ایکوسسٹم میں بہتری لا سکتے ہیں۔ 

 

 

 

کوویڈ- 19 کے بارے میں حقائق
کوویڈ- 19 کے بارے میں حقائق

تعارف: کورونا وائرس کی مختلف اقسام کو ہم  1960ء سے جانتے ہیں  لیکن اِس کی مختلف قسم حال ہی میں . . .

سکول آف ایجوکیشن کا تعلیمی سفر
سکول آف ایجوکیشن کا تعلیمی سفر

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ سائنسز  (لمز)نے اپنے پانچویں سکول کا آغاز کیا جس کولمز سکول آف . . .

منکیرہ  (ضلع بھکر)  اور  منکیرہ کی تعلیم
منکیرہ (ضلع بھکر) اور منکیرہ کی تعلیم

منکیرہ ضلع بھکر کی ایک اہم تحصیل ہے۔ یہ تحصیل پنجاب کی شیرگڑھ تحصیل کے بعد سب سے بڑی تحصیل . . .