پنجاب میں تعلیم کی نئی سکیم

تعلیم کی اہمیت سے نہ تو انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اِس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تعلیم میں تبدیلیاں اور نئی پالیسیاں وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ اسی سلسلے میں کچھ دن پہلے پنجاب کریکلم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ (Punjab Curriculum And Textbook Board) میں ایک نشست کا اہتمام کیا گیا۔جس میں مختلف شعبوں اور اداروں سے تعلق رکھنے والے لوگوں  نے شرکت کی۔
اِس سکیم کے مقاصد اور اہداف کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قانون 25-Aکے تحت یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پانچ سال سے لیکر سولہ سال کے بچوں کو معیاری اور مفت تعلیم کا بندوبست کرے۔اِس سلسلے میں پنجاب حکومت نے ایک ایکٹ  2015ء میں صوبائی اسمبلی سے پاس کیا۔اِس ایکٹ کے تحت  پنجاب کریکلم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ یہ بورڈ،تعلیم کی فراہمی کے لیے پالیسی سازی، نصاب بنانے کا عمل،درسی کتب کے کاپی رائیٹ اور ضمنی مضامین کا مواد تیار کرے۔اِس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے  پنجاب کریکلم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ  نے مختلف ممالک کے تدریسی عمل کو سامنے رکھا۔بلکہ مقامی طور پر دینی تعلیم کے اداروں، انجینئرنگ یونیورسٹیز، میڈیکل یونیورسٹیز،ایجوکیشن یونیورسٹیز اور لمز کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ جس کی نمائندگی لمز سکول آف ایجوکیشن کی طرف سے میں نے کی تھی۔
پالیسی سازی میں ابتدائی تعلیم (کچی اور پکی) سے لیکر انٹرمیڈیٹ تک کے طریقہ تعلیم پر ہر کسی نے اپنا نقطہِ نظر پیش کیااور پنجاب کریکلم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ  کی طرف سے پیش کی گئی تجاویز پراظہارِ خیال کیا۔ پنجاب کریکلم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ  نے تمام مضامین، اُن میں نمبروں کی تقسیم، تھیوری اور پریکٹیکل کی ترتیب کا احاطہ کیا گیا۔ جس پر سب نے سیر حاصل گفتگو کی۔اِ س بحث میں مختلف لوگوں کی مختلف آرا سامنے آئیں۔ 
جیسے ایک صاحب کی تجویز تھی کہ نویں اور دسویں جماعت کے اُن بچوں کو حساب کا مضمون نہیں پڑھانا چاہئے جنہوں نے میٹرک کے بعد سائنس کے مضامین نہ پڑھنے ہوں۔مگر شرکا میں سے ایک اور صاحب نے یہ کہہ کر اِس تجویز کو مسترد کر دیا کہ یہ طریقہ ماضی میں آزمایا جا چکا ہے جس کو صرف 2   سال بعد ہی ختم کرنا پڑا۔ اِس طرح کی تعلیم حاصل کرنے والے بچے آنے والی زندگی میں اپنے لیے مضامین کے انتخاب کی راہیں محدود پائیں گے اور جن بچوں نے حساب کا مضمون ہی نہیں پڑھا ہوگا وہ نہ تو فزکس اور نہ ہی کمپیوٹر سائنس کو مستقبل میں اپنا مضمون بنا سکیں گے۔ 

 

اِسی طرح ایک اور صاحب نے یہ خیال پیش کیا کہ نفسیات ایک بہت اہم مضمون ہے اور کیوں نہ ہم اِس کو نویں اور دسویں جماعت سے ہی متعارف کروادیں۔تو ایک شریک نے کہا کہ طرزِعمل کی سائنس (Behavioural Science)  کے مضمون کا اضافہ اچھی چیز ہو گی۔اِس پر بھی ایک صاحب بولے کہ کسی بھی مضمون کو نکالنے یا شامل کرنے کا اختیار کریکلم ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہے مگر یہ ایک اچھی تجویز ہے۔
ایک خوش آئند بات یہ دیکھنے میں آئی کہ سب لوگ دینی مدارس کو بھی مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے خواہاں تھے اور اِس کے لیے ہر طرح کی کوششوں کے لیے بھی تیار نظر آرہے تھے۔ایک خاص بات تھی کہ ڈائریکٹوریٹ آف سٹاف ڈویلپمنٹ  (DSD)  جو کہ کچھ دِن پہلے ہی قائدِ اعظم اکیڈمی آف ایجوکیشن ڈویلپمنٹ کے نام میں تبدیل ہوا تھا۔ یہ ڈپارٹمنٹ نہ صرف پرائمری سکول کے اساتذہ کی بلکہ تمام اساتذہ کو بھی 40روزہ تربیت دیا کرے گا۔
اِس کے علاوہ دیگر تجاویز میں سے اہم ایک کمپیوٹر سائنس اور ایک جسمانی تعلیم کے بارے میں تجاویز تھیں۔ ایک صاحب نے تجویز دی کہ کیوں نہ کمپیوٹر سائنس کے گروپ کو سائنس کے گروپ میں باقائدہ شامل کرلیا جائے جس کے جواب میں اُن کو بتایا گیا کہ یہ گروپ پہلے ہی پانچ مختلف مضامین کے مجموعہ کے ساتھ موجود ہے۔اِس کے ساتھ ساتھ جسمانی تعلیم (Physical Education)  کے بھی ایک نئے گروپ کا آغاز کیا گیا ہے اِس مقصد کے لیے انتہائی تربیت یافتہ اساتذہ کو بھرتی کیا گیا ہے جو کہ معیاری تعلیم کے حصول کو ممکن بنانے میں معاون ثابت ہوں گے۔تاہم اِس سلسلے میں جو پروگرام ترتیب دیا گیا ہے اُس کے مطابق تمام سکولوں میں ایک ہی وقت میں پی ٹی کا پیریڈ شروع ہوا کرے گا۔

 

اِس اہم نشت میں سب سے اہم بات ایگریکلچر یونیورسٹی کی فکلٹی کی طرف سے کی گئی۔اُن کے مطابق جس طرح پری میڈیکل اور پری انجینئرنگ کے گروپ ہیں اِسی طرح پری ایگریکلچر کا ایک گروپ بھی بنا دیا جائے۔ قیامِ پاکستان کے وقت یہ گروپ موجود تھا مگر بعد میں اِس کو ختم کر دیا گیا۔ چونکہ پاکستان کی زیادہ آبادی کا انحصار زراعت پر ہے تو اِس وجہ سے اِس کی بہت اہمیت بنتی ہے۔ مگر بورڈ کے اراکین کا خیال تھا کہ شہری لوگوں میں یہ مضمون غیر مقبول ہے اِس لیے یہ زیادہ کامیاب نہیں ہوگا۔
مگر میرے خیال کے مطابق ہو سکتاہے شہری طلباء اِس میں دلچسپی نہ دیکھائیں مگر چونکہ ہمارا ملک زرعی ملک ہے اِس لیے اِس بات کا بہت امکان ہے کہ یہ گروپ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائے گا۔ اِس سے نہ صرف ہمارے ملک کی زراعت کو فائدہ ہو گا بلکہ بیروزگاری کو بھی کم کرنے میں بہت مدد ملے گی۔ہمیں اپنے دیہات میں رہنے والے لوگوں کو بھی جدید دور کے جدید علوم سے متعارف کروانا چاہئے تاکہ وہ بھی ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
مجموعی طور پرجناب عامر ریاض صاحب نے سکیم آف سٹیڈیز کو بہت اچھے انداز میں بیان کیا اور ایک اچھا جائزہ پیش کیا۔میں نے مختلف لوگوں سے مختلف سوالات کے زریعے اُن کی سوچ کو جاننے کی کوشش کی۔ایک جگہ میں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا آنے والے وقت میں ہم اپنے امتحانات کو درسی کتب کی بجائے کریکلم سے منسلک کر سکیں گے اِس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ہم اِس پر پہلے سے ہی کام کر رہے ہیں اور تجرباتی طور پر سائنس کے مضامین میں اِس کی ابتدا ء کر دی گئی ہے۔میرے نزدیک یہ ایک شاندار قدم ہے۔اِس بات کے جواب میں بورڈ کے چیئرمین نے کہا کہ اِس سے سکولوں میں رٹہ سسٹم کو ختم کرنے میں مدد ملے گی اور اِس کام کے آغاز کے لیے سائنس بہترین ہے۔ڈائریکٹر آف پنجاب ایگزامینیشن کمیشن کے چیئرمین بھی وہاں موجود تھے اور انہوں نے بھی اِس بات کی تائید کی۔
میرے خیال میں یہ نشست تعلیم کے میدان میں بہتری لانے کی جانب ایک اچھا قدم ہے اِس بحث و مباحثے میں بہت اچھے انداز میں تجاویز کو پیش کیا گیا اور نہایت احسن انداز اور کھلے دل سے ایک تنقید کا بھی سامنا کیا گیا۔ اِس طرح کی ملاقاتیں مستقبل کی تعلیم کے لیے بہت سودمند ہوں گی۔

 

کوویڈ- 19 کے بارے میں حقائق
کوویڈ- 19 کے بارے میں حقائق

تعارف: کورونا وائرس کی مختلف اقسام کو ہم  1960ء سے جانتے ہیں  لیکن اِس کی مختلف قسم حال ہی میں . . .

تحلیقی تعلیم  کی اہمیت
تحلیقی تعلیم کی اہمیت

دنیا بہت تیزی سے تبدیلی کے مراحل سے گزر رہی ہے اور اِس تبدیل ہوتی ہوئی دنیا میں ہمارا نظامِ تعلیم . . .

پنجاب میں تعلیم کی نئی سکیم
پنجاب میں تعلیم کی نئی سکیم

تعلیم کی اہمیت سے نہ تو انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اِس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ جدید دور کے . . .